جوانی حریف ستم ہے تو کیا غم
تغیر ہی اگلا قدم ہے تو کیا غم
ہر اک شے ہے فانی تو یہ غم بھی فانی
مری آنکھ گر آج نم ہے تو کیا غم
مرے ہاتھ سلجھا ہی لیں گے کسی دن
ابھی زلف ہستی میں خم ہے تو کیا غم
خوشی کچھ ترے ہی لیے تو نہیں ہے
اگر حق مرا آج کم ہے تو کیا غم
مرے خوں پسینے سے گلشن بنیں گے
ترے بس میں ابر کرم ہے تو کیا غم
مرا کارواں بڑھ رہا ہے بڑھے گا
اگر رخ پہ گرد الم ہے تو کیا غم
یہ مانا کہ رہبر نہیں ہے مثالی
مگر اپنے سینے میں دم ہے تو کیا غم
مرا کارواں آپ رہبر ہے اپنا
یہ شیرازہ جب تک بہم ہے تو کیا غم
ترے پاس طبل و علم ہیں تو ہوں گے
مرے پاس زور قلم ہے تو کیا غم
غزل
جوانی حریف ستم ہے تو کیا غم
علی جواد زیدی