EN हिंदी
وقف شیاری | شیح شیری

وقف

69 شیر

عمر بھر ملنے نہیں دیتی ہیں اب تو رنجشیں
وقت ہم سے روٹھ جانے کی ادا تک لے گیا

فصیح اکمل




کس طرح عمر کو جاتے دیکھوں
وقت کو آنکھوں سے اوجھل کر دے

فضا ابن فیضی




مجھے تراش کے رکھ لو کہ آنے والا وقت
خزف دکھا کے گہر کی مثال پوچھے گا

فضا ابن فیضی




وقت نے کس آگ میں اتنا جلایا ہے مجھے
جس قدر روشن تھا میں اس سے سوا روشن ہوا

فضا ابن فیضی




رکھ دیا وقت نے آئینہ بنا کر مجھ کو
رو بہ رو ہوتے ہوئے بھی میں فراموش رہا

غلام مرتضی راہی




وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر
عادت اس کی بھی آدمی سی ہے

گلزار




گیا جو ہاتھ سے وہ وقت پھر نہیں آتا
کہاں امید کہ پھر دن پھریں ہمارے اب

حفیظ جونپوری