وہ وقت کا جہاز تھا کرتا لحاظ کیا
میں دوستوں سے ہاتھ ملانے میں رہ گیا
حفیظ میرٹھی
اک سال گیا اک سال نیا ہے آنے کو
پر وقت کا اب بھی ہوش نہیں دیوانے کو
ابن انشا
جب آ جاتی ہے دنیا گھوم پھر کر اپنے مرکز پر
تو واپس لوٹ کر گزرے زمانے کیوں نہیں آتے
عبرت مچھلی شہری
وقت کی موج ہمیں پار لگاتی کیسے
ہم نے ہی جسم سے باندھے ہوئے پتھر تھے بہت
جلیل حیدر لاشاری
دیا بجھا پھر جل جائے اور رت بھی پلٹا کھائے
پھر جو ہاتھ سے جائے سمے وہ کبھی نہ لوٹ کے آئے
جمال پانی پتی
موتی مونگے کنکر پتھر بچے نہ کوئی بھائی
سمے کی چکی سب کو پیسے کیا پربت کیا رائی
جمال پانی پتی
بابو گیری کرتے ہو گئے عالؔی کو دو سال
مرجھایا وہ پھول سا چہرہ بھورے پڑ گئے بال
جمیل الدین عالی