چشم حیرت کو تعلق کی فضا تک لے گیا
کوئی خوابوں سے مجھے دشت بلا تک لے گیا
ٹوٹتی پرچھائیوں کے شہر میں تنہا ہوں اب
حادثوں کا سلسلہ غم آشنا تک لے گیا
دھوپ دیواروں پہ چڑھ کر دیکھتی ہی رہ گئی
کون سورج کو اندھیروں کی گپھا تک لے گیا
عمر بھر ملنے نہیں دیتی ہیں اب تو رنجشیں
وقت ہم سے روٹھ جانے کی ادا تک لے گیا
اس قدر گہری اداسی کا سبب کھلتا نہیں
جیسے ہونٹوں سے کوئی حرف دعا تک لے گیا
جانے کس امید پر اک آرزو کا سلسلہ
مجھ سے پیہم دور ہوتی اک صدا تک لے گیا
خاک میں ملتے ہوئے برگ خزاں سے پوچھیے
کون شاخوں سے اسے اونچی ہوا تک لے گیا
غزل
چشم حیرت کو تعلق کی فضا تک لے گیا
فصیح اکمل