مدتوں کے بعد پھر کنج حرا روشن ہوا
کس کے لب پر دیکھنا حرف دعا روشن ہوا
روح کو آلائش غم سے کبھی خالی نہ رکھ
یعنی بے زنگار کس کا آئنا روشن ہوا
یہ تماشا دیدنی ٹھہرا مگر دیکھے گا کون
ہو گئے ہم راکھ تو دست دعا روشن ہوا
رات جنگل کا سفر سب ہم سفر بچھڑے ہوئے
دے نہ ہم کو یہ بشارت راستا روشن ہوا
خواہشوں خوابوں کا پیکر ہی سہی میرا وجود
اک ستارے کی حقیقت کیا بجھا روشن ہوا
بوئے گل پتوں میں چھپتی پھر رہی تھی دیر سے
نا گہاں شاخوں میں اک دست صبا روشن ہوا
اس قدر مضبوط موسم پر رہی کس کی گرفت
میں کہ مجھ سے سینۂ آب و ہوا روشن ہوا
اک ذرا اس سے بڑھی قربت تو آنکھیں کھل گئیں
اس کے میرے بیچ تھا جو فاصلا روشن ہوا
وقت نے کس آگ میں اتنا جلایا ہے مجھے
جس قدر روشن تھا میں اس سے سوا روشن ہوا
مجھ کو میری آگہی آنکھوں سے اوجھل کر گئی
اس نے جو کچھ لوح جاں پر لکھ دیا روشن ہوا
اے فضاؔ اتنی کشادہ کب تھی معنی کی جہت
میرے لفظوں سے افق اک دوسرا روشن ہوا
غزل
مدتوں کے بعد پھر کنج حرا روشن ہوا
فضا ابن فیضی