شکست شیشۂ دل کی صدا ہوں
میں خود بھی خود کو سننا چاہتا ہوں
نہیں میرے لیے کیا اور کوئی
اسی کا راستہ کیوں دیکھتا ہوں
اسی ساحل پہ ڈوبوں گا جہاں سے
سمندر کا تماشا کر رہا ہوں
چراغ شعلۂ سر ہوں اور ہوا میں
سر دیوار جاں رکھا ہوا ہوں
گزرنا ہے جسے صحرا سے ہو کر
میں اس دریا کے دکھ سے آشنا ہوں
وصال یار کی خواہش میں اکثر
چراغ شام سے پہلے جلا ہوں
غنودہ ساعتوں کی شب سے تشنہؔ
طواف عارض و لب کر رہا ہوں
غزل
شکست شیشۂ دل کی صدا ہوں
عالم تاب تشنہ