EN हिंदी
نگاہیں جھک گئیں آیا شباب آہستہ آہستہ | شیح شیری
nigahen jhuk gain aaya shabab aahista aahista

غزل

نگاہیں جھک گئیں آیا شباب آہستہ آہستہ

ہاشم علی خاں دلازاک

;

نگاہیں جھک گئیں آیا شباب آہستہ آہستہ
پڑا آنکھوں پہ پلکوں کا حجاب آہستہ آہستہ

سوالی بن کے جب مشتاق نظریں پڑ گئیں ان پر
نگاہوں نے دیا ان کی جواب آہستہ آہستہ

کبھی اشکوں کے طوفاں میں کبھی مژگاں سے داماں میں
لہو کا دل بہا یوں بے حساب آہستہ آہستہ

اسی امید پر تو جی رہے ہیں ہجر کے مارے
کبھی تو رخ سے اٹھے گی نقاب آہستہ آہستہ

خیالوں سے رخ زیبا جو اکثر دیکھ لیتا ہے
مٹا جاتا ہے وہ بھی کیف خواب آہستہ آہستہ

رخ زیبا پہ لہریں لیتی ہیں کچھ اس طرح زلفیں
کہ جیسے چاند پر چھائے سحاب آہستہ آہستہ

متاع زندگی سمجھا تھا سوز غم کو میں ہاشمؔ
مٹا جانا ہے وہ بھی اضطراب آہستہ آہستہ