EN हिंदी
صدام شیاری | شیح شیری

صدام

44 شیر

اس ڈوبتے سورج سے تو امید ہی کیا تھی
ہنس ہنس کے ستاروں نے بھی دل توڑ دیا ہے

مہیش چندر نقش




شام ہجراں بھی اک قیامت تھی
آپ آئے تو مجھ کو یاد آیا

مہیش چندر نقش




یہ اور بات کہ چاہت کے زخم گہرے ہیں
تجھے بھلانے کی کوشش تو ورنہ کی ہے بہت

محمود شام




اب تو کچھ بھی یاد نہیں ہے
ہم نے تم کو چاہا ہوگا

مظہر امام




درد دل کیا بیاں کروں رشکیؔ
اس کو کب اعتبار آتا ہے

محمد علی خاں رشکی




ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ
اداسی بال کھولے سو رہی ہے

ناصر کاظمی




جدائیوں کے زخم درد زندگی نے بھر دیے
تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا

ناصر کاظمی