پر کیف بہاروں نے بھی دل توڑ دیا ہے
ہاں ان کے نظاروں نے بھی دل توڑ دیا ہے
طوفان کا شیوہ تو ہے کشتی کو ڈبونا
خاموش کناروں نے بھی دل توڑ دیا ہے
اس ڈوبتے سورج سے تو امید ہی کیا تھی
ہنس ہنس کے ستاروں نے بھی دل توڑ دیا ہے
کس طرح کریں تجھ سے گلہ تیرے ستم کا
مدہوش اشاروں نے بھی دل توڑ دیا ہے
مانا کہ تھی غمگین کلی خوف خزاں سے
چپ رہ کے بہاروں نے بھی دل توڑ دیا ہے
اغیار کا شکوہ نہیں اس عہد ہوس میں
اک عمر کے یاروں نے بھی دل توڑ دیا ہے
یہ دور محبت بھی عجب دور ہے اس میں
اے نقشؔ سہاروں نے بھی دل توڑ دیا ہے
غزل
پر کیف بہاروں نے بھی دل توڑ دیا ہے
مہیش چندر نقش