چہرۂ زندگی نکھر آیا
جب کبھی ہم نے جام چھلکایا
شام ہجراں بھی اک قیامت تھی
آپ آئے تو مجھ کو یاد آیا
رنگ پھیکا پڑا وفاؤں کا
آج کچھ اس طرح وہ شرمایا
یوں تو بے چینیاں مقدر تھیں
تیری قربت نے اور تڑپایا
کیا قیامت وہ کم نگاہی تھی
ہر حقیقت کو جس نے جھٹلایا
کیا ہوئی وہ دلوں کی معصومی
حسن روٹھا نہ عشق پچھتایا
ہائے کس کس مقام پر دل کو
اس اچٹتی نظر نے بھٹکایا
خود شناسی تھی جستجو تیری
تجھ کو ڈھونڈا تو آپ کو پایا
نقشؔ آنکھوں میں آ گئے آنسو
آج ایسے میں کون یاد آیا
غزل
چہرۂ زندگی نکھر آیا
مہیش چندر نقش