کوسوں دور کنارا ہوگا
کشتی ہوگی دریا ہوگا
پاس تمہیں ہو تم ہی بتاؤ
کوئی مجھ سا تنہا ہوگا
آؤ اور قریب آ جاؤ
وقت بھی رستہ تکتا ہوگا
تم سے حسیں تو اور بھی ہوں گے
لیکن کوئی تم سا ہوگا
اب تو کچھ بھی یاد نہیں ہے
ہم نے تم کو چاہا ہوگا
ہم نے گریباں چاک کیا تھا
ہم کو ہی خود سینا ہوگا
جب ہم تیرا نام نہ لیں گے
وہ بھی ایک زمانا ہوگا
وہ بھی ایک حقیقت ہوگی
جس کا نام فسانہ ہوگا
کل کی فکر کہاں تک کیجے
اور برا اب کتنا ہوگا
ہاں وہ امامؔ اک رسوا شاعر
تم نے اس کو دیکھا ہوگا
غزل
کوسوں دور کنارا ہوگا
مظہر امام