EN हिंदी
راٹ شیاری | شیح شیری

راٹ

43 شیر

شب کے سناٹے میں یہ کس کا لہو گاتا ہے
سرحد درد سے یہ کس کی صدا آتی ہے

علی سردار جعفری




رات آئی ہے بلاؤں سے رہائی دے گی
اب نہ دیوار نہ زنجیر دکھائی دے گی

انور مسعود




ابھی رات کچھ ہے باقی نہ اٹھا نقاب ساقی
ترا رند گرتے گرتے کہیں پھر سنبھل نہ جائے

as yet the night does linger on do not remove your veil
lest your besotten follower re-gains stability

انور مرزاپوری




تھا وعدہ شام کا مگر آئے وہ رات کو
میں بھی کواڑ کھولنے فوراً نہیں گیا

انور شعور




آنے والی آ نہیں چکتی جانے والی جا بھی چکی
ویسے تو ہر جانے والی رات تھی آنے والی رات

عطا الرحمن جمیل




ہر ایک رات کو مہتاب دیکھنے کے لیے
میں جاگتا ہوں ترا خواب دیکھنے کے لیے

اظہر عنایتی




ہمارے خواب چوری ہو گئے ہیں
ہمیں راتوں کو نیند آتی نہیں ہے

بخش لائلپوری