EN हिंदी
راٹ شیاری | شیح شیری

راٹ

43 شیر

ہچکیاں رات درد تنہائی
آ بھی جاؤ تسلیاں دے دو

ناصر جونپوری




میں سوتے سوتے کئی بار چونک چونک پڑا
تمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئی

ناصر کاظمی




کچھ بھی بچا نہ کہنے کو ہر بات ہو گئی
آؤ کہیں شراب پئیں رات ہو گئی

ندا فاضلی




اس سفر میں نیند ایسی کھو گئی
ہم نہ سوئے رات تھک کر سو گئی

راہی معصوم رضا




لوگ کہتے ہیں رات بیت چکی
مجھ کو سمجھاؤ! میں شرابی ہوں

ساغر صدیقی




آنکھوں کو سب کی نیند بھی دی خواب بھی دیے
ہم کو شمار کرتی رہی دشمنوں میں رات

شہریار




پہلے نہائی اوس میں پھر آنسوؤں میں رات
یوں بوند بوند اتری ہمارے گھروں میں رات

شہریار