کوئی شے دل کو بہلاتی نہیں ہے
پریشانی کی رت جاتی نہیں ہے
ہمارے خواب چوری ہو گئے ہیں
ہمیں راتوں کو نیند آتی نہیں ہے
کوئی تتلی کماں داروں کے ڈر سے
فضا میں پنکھ پھیلاتی نہیں ہے
ہر اک صورت پہ گرد مصلحت ہے
کوئی صورت ہمیں بھاتی نہیں ہے
جس آزادی کے نغمے ہیں زباں پر
وہ آزادی نظر آتی نہیں ہے
بدن بے حرکت و بے حس پڑے ہیں
لہو کی بوند گرماتی نہیں ہے
مسلسل ہوش کی چابک زنی سے
مری آشفتگی جاتی نہیں ہے
زوال فکر و فن کی بخشؔ تہمت
جلال حرف پر آتی نہیں ہے
غزل
کوئی شے دل کو بہلاتی نہیں ہے
بخش لائلپوری