آج بھی جس کی خوشبو سے ہے متوالی متوالی رات
وہ ترے جلتے پہلو میں تھی جان نکالنے والی رات
صبح سے تنہا تنہا پھرنا پھر آئے گی سوالی رات
اور ترے پاس دھرا ہی کیا ہے اے مری خالی خالی رات
دل پر برف کی سل رکھ دینا ناگن بن کر ڈس لینا
اپنے لیے دونوں ہی برابر کالی ہو کہ اجالی رات
پیلے پتے سوکھی شاخوں پر بھی تو اکثر چمکا چاند
مجھ سے ملنے کبھی نہ آئی تیری ناز کی پالی رات
دیکھ لیے آنکھوں نے میری تازہ شبنم باسی پھول
گرچہ صبح کو میری خاطر تم نے مجھ سے چھپا لی رات
تم اس کو سونا کہتے ہو تم کیا ہم بھی کہتے ہیں
اپنی تھکی پلکوں پر ہم نے لمحہ بھر جو سنبھالی رات
آنے والی آ نہیں چکتی جانے والی جا بھی چکی
ویسے تو ہر جانے والی رات تھی آنے والی رات
غزل
آج بھی جس کی خوشبو سے ہے متوالی متوالی رات
عطا الرحمن جمیل