EN हिंदी
مہبب شیاری | شیح شیری

مہبب

37 شیر

ہم سے کوئی تعلق خاطر تو ہے اسے
وہ یار با وفا نہ سہی بے وفا تو ہے

جمیل ملک




میری نگاہ شوق بھی کچھ کم نہیں مگر
پھر بھی ترا شباب ترا ہی شباب ہے

جگر مراد آبادی




نہ غرض کسی سے نہ واسطہ مجھے کام اپنے ہی کام سے
ترے ذکر سے تری فکر سے تری یاد سے ترے نام سے

جگر مراد آبادی




کیا ستم ہے کہ وہ ظالم بھی ہے محبوب بھی ہے
یاد کرتے نہ بنے اور بھلائے نہ بنے

کلیم عاجز




آسماں جھانک رہا ہے خالدؔ
چاند کمرے میں مرے اترا ہے

خالد شریف




روشنی کے لیے دل جلانا پڑا
کیسی ظلمت بڑھی تیرے جانے کے بعد

خمارؔ بارہ بنکوی




تمہاری آنکھوں کی توہین ہے ذرا سوچو
تمہارا چاہنے والا شراب پیتا ہے

منور رانا