دست بردار زندگی سے ہوا
اور یہ سودا مری خوشی سے ہوا
آگہی بھی نہ کر سکی پورا
جتنا نقصان آگہی سے ہوا
میں ہوا بھی تو ایک دن روشن
اپنے اندر کی روشنی سے ہوا
زندگی میں کسک ضروری تھی
یہ خلا پر تری کمی سے ہوا
دل طرفدار ہجر تھا ہی نہیں
اب ہوا بھی تو بے دلی سے ہوا
شور جتنا ہے کائنات میں شور
میرے اندر کی خامشی سے ہوا
کیسا منصب ہے آدمی کا کہ رب
جب مخاطب ہوا اسی سے ہوا
پیڑ ہو یا کہ آدمی غائرؔ
سر بلند اپنی عاجزی سے ہوا
غزل
دست بردار زندگی سے ہوا
کاشف حسین غائر