جھوٹ سچ آپ تو الزام دیئے جاتے ہیں
بات سنتے نہیں دشنام دیئے جاتے ہیں
ترچھی نظروں سے کئے اس نے بہت دل زخمی
تیر ٹیڑھے مگر کام دیئے جاتے ہیں
کہہ گیا یہ بھی کوئی روٹھ کے جانے والا
ہم تجھے موت کا پیغام دیئے جاتے ہیں
پاسبان جاگ اٹھیں وہ تو انہیں دے دینا
لکھ کے کاغذ پہ یہ اک نام دیئے جاتے ہیں
آپ کے لطف و عنایت کا یہی ہے بدلہ
غم لئے جاتے ہیں آرام دیئے جاتے ہیں
دل ہوا جان ہوئی ان کی بھلا کیا قیمت
ایسی چیزوں کے کہیں دام دیئے جاتے ہیں
تیر قاتل کو کلیجے سے لگا رکھا ہے
ہم تو دشمن کو بھی آرام دیئے جاتے ہیں
کام آ جائے گا دشمن کی محبت میں کبھی
احتیاطاً دل ناکام دیئے جاتے ہیں
اب تو کھل کھیلے وہ بیخودؔ سے خدا خیر کرے
اب تو خود بھر کے اسے جام دیئے جاتے ہیں
غزل
جھوٹ سچ آپ تو الزام دیئے جاتے ہیں
بیخود دہلوی