نہ کوئی وعدہ نہ کوئی یقیں نہ کوئی امید
مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا
no promise,surety, nor any hope was due
yet I had little choice but to wait for you
فراق گورکھپوری
عادتاً تم نے کر دیے وعدے
عادتاً ہم نے اعتبار کیا
گلزار
جب نہیں کچھ اعتبار زندگی
اس جہاں کا شاد کیا ناشاد کیا
امداد امام اثرؔ
ہر چند اعتبار میں دھوکے بھی ہیں مگر
یہ تو نہیں کسی پہ بھروسا کیا نہ جائے
جاں نثاراختر
میں اب کسی کی بھی امید توڑ سکتا ہوں
مجھے کسی پہ بھی اب کوئی اعتبار نہیں
جواد شیخ
عشق کو ایک عمر چاہئے اور
عمر کا کوئی اعتبار نہیں
جگر بریلوی
ثبوت ہے یہ محبت کی سادہ لوحی کا
جب اس نے وعدہ کیا ہم نے اعتبار کیا
جوشؔ ملیح آبادی