EN हिंदी
براوسا شیاری | شیح شیری

براوسا

28 شیر

بھولی باتوں پہ تیری دل کو یقیں
پہلے آتا تھا اب نہیں آتا

آرزو لکھنوی




مری زبان کے موسم بدلتے رہتے ہیں
میں آدمی ہوں مرا اعتبار مت کرنا

عاصمؔ واسطی




اے مجھ کو فریب دینے والے
میں تجھ پہ یقین کر چکا ہوں

اطہر نفیس




آپ کا اعتبار کون کرے
روز کا انتظار کون کرے

who can depend on what you say?
who will wait each every day?

داغؔ دہلوی




غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا

داغؔ دہلوی




یوں نہ قاتل کو جب یقیں آیا
ہم نے دل کھول کر دکھائی چوٹ

فانی بدایونی




کسی پہ کرنا نہیں اعتبار میری طرح
لٹا کے بیٹھوگے صبر و قرار میری طرح

فرید پربتی