وہ صبر دے کہ نہ دے جس نے بیقرار کیا
بس اب تمہیں پہ چلو ہم نے انحصار کیا
تمہارا ذکر نہیں ہے تمہارا نام نہیں
کیا نصیب کا شکوہ ہزار بار کیا
ثبوت ہے یہ محبت کی سادہ لوحی کا
جب اس نے وعدہ کیا ہم نے اعتبار کیا
مآل ہم نے جو دیکھا سکون و جنبش کا
تو کچھ سمجھ کے تڑپنا ہی اختیار کیا
مرے خدا نے مرے سب گناہ بخش دیے
کسی کا رات کو یوں میں نے انتظار کیا
غزل
وہ صبر دے کہ نہ دے جس نے بیقرار کیا
جوشؔ ملیح آبادی