سرخ سحر سے ہے تو بس اتنا سا گلہ ہم لوگوں کا
ہجر چراغوں میں پھر شب بھر خون جلا ہم لوگوں کا
ہم وحشی تھے وحشت میں بھی گھر سے کبھی باہر نہ رہے
جنگل جنگل پھر بھی کتنا نام ہوا ہم لوگوں کا
اور تو کچھ نقصان ہوا ہو خواب میں یاد نہیں ہے مگر
ایک ستارہ ضرب سحر سے ٹوٹ گیا ہم لوگوں کا
یہ جو ہم تخلیق جہان نو میں لگے ہیں پاگل ہیں
دور سے ہم کو دیکھنے والے ہاتھ بٹا ہم لوگوں کا
بگڑے تھے بگڑے ہی رہے اور عمر گزاری مستی میں
دنیا دنیا کرنے سے جب کچھ نہ بنا ہم لوگوں کا
خاک کی شہرت دیکھ کے ہم بھی خاک ہوئے تھے پل بھر کو
پھر تو تعاقب کرتی رہی اک عمر ہوا ہم لوگوں کا
شب بھر اک آواز بنائی صبح ہوئی تو چیخ پڑے
روز کا اک معمول ہے اب تو خواب زدہ ہم لوگوں کا
غزل
سرخ سحر سے ہے تو بس اتنا سا گلہ ہم لوگوں کا
ابھیشیک شکلا