اب اختیار میں موجیں نہ یہ روانی ہے
میں بہہ رہا ہوں کہ میرا وجود پانی ہے
میں اور میری طرح تو بھی اک حقیقت ہے
پھر اس کے بعد جو بچتا ہے وہ کہانی ہے
ترے وجود میں کچھ ہے جو اس زمیں کا نہیں
ترے خیال کی رنگت بھی آسمانی ہے
ذرا بھی دخل نہیں اس میں ان ہواؤں کا
ہمیں تو مصلحتاً اپنی خاک اڑانی ہے
یہ خواب گاہ یہ آنکھیں یہ میرا عشق قدیم
ہر ایک چیز مری ذات میں پرانی ہے
وہ ایک دن جو تجھے سوچنے میں گزرا تھا
تمام عمر اسی دن کی ترجمانی ہے
نواح جاں میں بھٹکتی ہیں خوشبوئیں جس کی
وہ ایک پھول کہ لگتا ہے رات رانی ہے
ارادتاً تو کہیں کچھ نہیں ہوا لیکن
میں جی رہا ہوں یہ سانسوں کی خوش گمانی ہے
غزل
اب اختیار میں موجیں نہ یہ روانی ہے
ابھیشیک شکلا