EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

میں اس کا نام لے بیٹھا تھا اک دن
زمانے کو بہانہ چاہئے تھا

اظہر ادیب




میرے ہرے وجود سے پہچان اس کی تھی
بے چہرہ ہو گیا ہے وہ جب سے جھڑا ہوں میں

اظہر ادیب




نکل آیا ہوں آگے اس جگہ سے
جہاں سے لوٹ جانا چاہیے تھا

اظہر ادیب




سارے منظر میں سمایا ہوا لگتا ہے مجھے
کوئی اس شہر میں آیا ہوا لگتا ہے مجھے

اظہر ادیب




سمجھ میں آ تو سکتی ہے صبا کی گفتگو بھی
مگر اس کے لیے معصوم ہونا لازمی ہے

اظہر ادیب




شب بھر آنکھ میں بھیگا تھا
پورے دن میں سوکھا خواب

اظہر ادیب




صبح کیسی ہے وہاں شام کی رنگت کیا ہے
اب ترے شہر میں حالات کی صورت کیا ہے

اظہر ادیب