EN हिंदी
صبح کیسی ہے وہاں شام کی رنگت کیا ہے | شیح شیری
subh kaisi hai wahan sham ki rangat kya hai

غزل

صبح کیسی ہے وہاں شام کی رنگت کیا ہے

اظہر ادیب

;

صبح کیسی ہے وہاں شام کی رنگت کیا ہے
اب ترے شہر میں حالات کی صورت کیا ہے

ایک آزار دھڑکتا ہے یہاں سینے میں
اب تجھے کیسے بتائیں کہ محبت کیا ہے

حکم دیتا ہے تو آواز لرز جاتی ہے
جانے اب کے مرے سالار کی نیت کیا ہے

یہ جو میں پیڑ اگانے میں لگا رہتا ہوں
میں سمجھتا ہوں مری پہلی ضرورت کیا ہے

میرا تو یہ ہے کہ میں بکھرا ہوا ہوں اب تک
تو بتا مجھ سے بچھڑ کر تری حالت کیا ہے

آنکھ میں اڑتی ہوئی دھول بتا دیتی ہے
دل میں آئے ہوئے بھونچال کی شدت کیا ہے

لمحہ لمحہ میں کھنچا جاتا ہوں اس کی جانب
جانے اس مٹی سے اظہرؔ مری نسبت کیا ہے