EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

جب بھی چاہوں تیرا چہرا سوچ سکوں
بس اتنی سی بات مرے امکان میں رکھ

اظہر ادیب




جو زندگی کی مانگ سجاتے رہے سدا
قسطوں میں بانٹ کر انہیں جینا دیا گیا

اظہر ادیب




کبھی اس سے دعا کی کھیتیاں سیراب کرنا
جو پانی آنکھ کے اندر کہیں ٹھہرا ہوا ہے

اظہر ادیب




کسی کی ذات میں ضم ہو گیا ہوں
میں اپنے آپ میں غم ہو گیا ہوں

اظہر ادیب




لہجے اور آواز میں رکھا جاتا ہے
اب تو زہر الفاظ میں رکھا جاتا ہے

اظہر ادیب




لوگو ہم تو ایک ہی صورت میں ہتھیار اٹھاتے ہیں
جب دشمن ہو اپنے جیسا خود سر بھی اور ہمسر بھی

اظہر ادیب




میں جس لمحے کو زندہ کر رہا ہوں مدتوں سے
وہی لمحہ مرا انکار کرنا چاہتا ہے

اظہر ادیب