پتا ہوں آندھیوں کے مقابل کھڑا ہوں میں
گرتے ہوئے درخت سے کتنا بڑا ہوں میں
پرچم ہوں روشنی کا مرا احترام کر
تاریکیوں کا راستہ روکے کھڑا ہوں میں
میرے ہرے وجود سے پہچان اس کی تھی
بے چہرہ ہو گیا ہے وہ جب سے جھڑا ہوں میں
مت سوچ یہ کہ میری کسی نے نہیں سنی
یہ دیکھ اپنی بات پہ کتنا اڑا ہوں میں
اب اس کے رابطے بھی مرے دشمنوں سے ہیں
جس کے وقار کے لیے اظہرؔ لڑا ہوں میں

غزل
پتا ہوں آندھیوں کے مقابل کھڑا ہوں میں
اظہر ادیب