جگمگاتی خواہشوں کا نور پھیلا رات بھر
صحن دل میں وہ گل مہتاب بکھرا رات بھر
ایک بھولا واقعہ جب دفعتاً یاد آ گیا
آتش ذوق طلب نے پھر جلایا رات بھر
دوستوں کے ساتھ دن میں بیٹھ کر ہنستا رہا
اپنے کمرے میں وہ جا کر خوب رویا رات بھر
نیند کے صحرا میں پانی کی طرح گم ہو گیا
میں نے اس کو خواب میں ہر سمت ڈھونڈا رات بھر
دھوپ کے بادل برس کر جا چکے تھے اور میں
اوڑھ کر شبنم کی چادر چھت پہ سویا رات بھر
نیند کی کومل فصیلیں آندھیوں میں بہہ گئیں
میں نے اپنے خواب کی لاشوں کو ڈھویا رات بھر
نرم بستر پر شکن کی کرچیاں بکھری رہیں
میں نے اسلمؔ اک عجب سا خواب دیکھا رات بھر

غزل
جگمگاتی خواہشوں کا نور پھیلا رات بھر
اسلم آزاد