وہ کیا ہے کون ہے یہ تو ذرا بتا مجھ کو
کہ جس نے سنگ میں تبدیل کر دیا مجھ کو
میں کھو نہ جاؤں کہیں دشت نامرادی میں
تو اپنی آنکھوں کی آغوش میں چھپا مجھ کو
کسی طرح نہ طلسم سکوت ٹوٹ سکا
وہ دے رہا تھا بہت دور سے صدا مجھ کو
میں دوسروں کی ملامت کا بوجھ سہہ لوں گا
مگر تو اپنی نظر سے نہ یوں گرا مجھ کو
میں تیرے سامنے پھر سر بلند ہو نہ سکوں
گنہ کی ریت میں اس طرح مت دبا مجھ کو
بدن کی آگ کو اوڑھا ہے چادروں کی طرح
ملی ہے خوب مرے جرم کی سزا مجھ کو
غزل
وہ کیا ہے کون ہے یہ تو ذرا بتا مجھ کو
اسلم آزاد