اب دھنک کے رنگ بھی ان کو بھلے لگتے نہیں
مست سارے شہر والے خون کی ہولی میں تھے
آل احمد سرور
ابھی آتے نہیں اس رند کو آداب مے خانہ
جو اپنی تشنگی کو فیض ساقی کی کمی سمجھے
آل احمد سرور
بستیاں کچھ ہوئیں ویران تو ماتم کیسا
کچھ خرابے بھی تو آباد ہوا کرتے ہیں
آل احمد سرور
ہم جس کے ہو گئے وہ ہمارا نہ ہو سکا
یوں بھی ہوا حساب برابر کبھی کبھی
آل احمد سرور
ہم تو کہتے تھے زمانہ ہی نہیں جوہر شناس
غور سے دیکھا تو اپنے میں کمی پائی گئی
آل احمد سرور
ہستی کے بھیانک نظارے ساتھ اپنے چلے ہیں دنیا سے
یہ خواب پریشاں اور ہم کو تا صبح قیامت سونا ہے
آل احمد سرور
حسن کافر تھا ادا قاتل تھی باتیں سحر تھیں
اور تو سب کچھ تھا لیکن رسم دل داری نہ تھی
آل احمد سرور