لوگ تنہائی کا کس درجہ گلا کرتے ہیں
اور فن کار تو تنہا ہی رہا کرتے ہیں
وہ تبسم ہے کہ غالبؔ کی طرح دار غزل
دیر تک اس کی بلاغت کو پڑھا کرتے ہیں
کوئی جادو کوئی جلوہ کوئی مستی کوئی موج
ہم انہیں چند سہاروں پہ جیا کرتے ہیں
دن پہ یاروں کو اندھیرے کا گماں ہوتا ہے
ہم اندھیرے میں کرن ڈھونڈھ لیا کرتے ہیں
بستیاں کچھ ہوئیں ویران تو ماتم کیسا
کچھ خرابے بھی تو آباد ہوا کرتے ہیں
سننے والوں کی ہے توفیق سنیں یا نہ سنیں
بات کہنے کی جو ہے ہم تو کہا کرتے ہیں
ساحل و بحر کے آئین سلامت نہ رہے
اب تو ساحل سے بھی طوفان اٹھا کرتے ہیں
لوگ باتوں میں بہا دیتے ہیں اس دور کا درد
اور اشعار میں ہم ڈھال لیا کرتے ہیں
غزل
لوگ تنہائی کا کس درجہ گلا کرتے ہیں
آل احمد سرور