میکشوں میں نہ کوئی مجھ سا نمازی ہوگا
در مے خانہ پہ بچھتا ہے مصلیٰ اپنا
آغا اکبرآبادی
او ستم گر تری تلوار کا دھبا چھٹ جائے
اپنے دامن کو لہو سے مرے بھر جانے دے
آغا اکبرآبادی
رقیب قتل ہوا اس کی تیغ ابرو سے
حرام زادہ تھا اچھا ہوا حلال ہوا
آغا اکبرآبادی
رند مشرب ہیں کسی سے ہمیں کچھ کام نہیں
دیر اپنا ہے نہ کعبہ نہ کلیسا اپنا
آغا اکبرآبادی
صنم پرستی کروں ترک کیوں کر اے واعظ
بتوں کا ذکر خدا کی کتاب میں دیکھا
آغا اکبرآبادی
شراب پیتے ہیں تو جاگتے ہیں ساری رات
مدام عابد شب زندہ دار ہم بھی ہیں
آغا اکبرآبادی
شکایت مجھ کو دونوں سے ہے ناصح ہو کہ واعظ ہو
نہ سمجھا ہوں نہ سمجھوں سر پھرا لے جس کا جی چاہے
آغا اکبرآبادی