ہم نہ اس ٹولی میں تھے یارو نہ اس ٹولی میں تھے
نے کسی کی جیب میں تھے نہ کسی جھولی میں تھے
بندہ پرور صرف نظارے پہ قدغن کس لیے
پھول پھل جو باغ کے تھے آپ کی جھولی میں تھے
آپ کے نعروں میں للکاروں میں کیسے آئیں گے
زمزمے جو ان کہی اک پیار کی بولی میں تھے
پھر کسی کوفے میں تنہا ہے کوئی ابن عقیل
اس کے ساتھی سب کے سب سرکار کی ٹولی میں تھے
اب دھنک کے رنگ بھی ان کو بھلے لگتے نہیں
مست سارے شہر والے خون کی ہولی میں تھے
غزل
ہم نہ اس ٹولی میں تھے یارو نہ اس ٹولی میں تھے
آل احمد سرور