قسمت میں خوشی جتنی تھی ہوئی اور غم بھی ہے جتنا ہونا ہے
گھر پھونک تماشا دیکھ چکے اب جنگل جنگل رونا ہے
ہستی کے بھیانک نظارے ساتھ اپنے چلے ہیں دنیا سے
یہ خواب پریشاں اور ہم کو تا صبح قیامت سونا ہے
دم ہے کہ ہے اکھڑا اکھڑا سا اور وہ بھی نہیں آ چکتے ہیں
قسمت میں ہو مرنا یا جینا اب ہو بھی چکے جو ہونا ہے
دل ہی تو ہے آخر بھر آیا تم چیں بہ جبیں کیوں ہوتے ہو
ہم تم کو بھلا کچھ کہتے ہیں تقدیر کا اپنی رونا ہے
غم کاہے کا یارو ماتم کیا بدلو گے نظام عالم کیا
مرنا تھا رضاؔ کو مرتا ہے یہ کاہے کا رونا دھونا ہے
غزل
قسمت میں خوشی جتنی تھی ہوئی اور غم بھی ہے جتنا ہونا ہے
آل رضا رضا