میں کامیاب دید بھی محروم دید بھی
جلووں کے اژدحام نے حیراں بنا دیا
اصغر گونڈوی
میں کیا کہوں کہاں ہے محبت کہاں نہیں
رگ رگ میں دوڑی پھرتی ہے نشتر لیے ہوئے
اصغر گونڈوی
مری وحشت پہ بحث آرائیاں اچھی نہیں زاہد
بہت سے باندھ رکھے ہیں گریباں میں نے دامن میں
اصغر گونڈوی
مجھ کو خبر رہی نہ رخ بے نقاب کی
ہے خود نمود حسن میں شان حجاب کی
اصغر گونڈوی
مجھ سے جو چاہئے وہ درس بصیرت لیجے
میں خود آواز ہوں میری کوئی آواز نہیں
اصغر گونڈوی
نہ کچھ فنا کی خبر ہے نہ ہے بقا معلوم
بس ایک بے خبری ہے سو وہ بھی کیا معلوم
اصغر گونڈوی
نہیں دیر و حرم سے کام ہم الفت کے بندے ہیں
وہی کعبہ ہے اپنا آرزو دل کی جہاں نکلے
اصغر گونڈوی

