EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

یہ بھی فریب سے ہیں کچھ درد عاشقی کے
ہم مر کے کیا کریں گے کیا کر لیا ہے جی کے

اصغر گونڈوی




یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑ گئی
یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنا دیا

اصغر گونڈوی




زلف تھی جو بکھر گئی رخ تھا کہ جو نکھر گیا
ہائے وہ شام اب کہاں ہائے وہ اب سحر کہاں

اصغر گونڈوی




پتھر لیے ہر موڑ پہ کچھ لوگ کھڑے ہیں
اس شہر میں کتنے ہیں مرے چاہنے والے

اصغر گورکھپوری




آدمی پہلے بھی ننگا تھا مگر جسم تلک
آج تو روح کو بھی ہم نے برہنہ پایا

اصغر مہدی ہوش




آنے والے دور میں جو پائے گا پیغمبری
میرا چہرہ میرا دل میری زباں لے جائے گا

اصغر مہدی ہوش




بچے کھلی فضا میں کہاں تک نکل گئے
ہم لوگ اب بھی قید اسی بام و در میں ہیں

اصغر مہدی ہوش