یہ بھی فریب سے ہیں کچھ درد عاشقی کے
ہم مر کے کیا کریں گے کیا کر لیا ہے جی کے
اصغر گونڈوی
یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑ گئی
یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنا دیا
اصغر گونڈوی
زلف تھی جو بکھر گئی رخ تھا کہ جو نکھر گیا
ہائے وہ شام اب کہاں ہائے وہ اب سحر کہاں
اصغر گونڈوی
پتھر لیے ہر موڑ پہ کچھ لوگ کھڑے ہیں
اس شہر میں کتنے ہیں مرے چاہنے والے
اصغر گورکھپوری
آدمی پہلے بھی ننگا تھا مگر جسم تلک
آج تو روح کو بھی ہم نے برہنہ پایا
اصغر مہدی ہوش
آنے والے دور میں جو پائے گا پیغمبری
میرا چہرہ میرا دل میری زباں لے جائے گا
اصغر مہدی ہوش
بچے کھلی فضا میں کہاں تک نکل گئے
ہم لوگ اب بھی قید اسی بام و در میں ہیں
اصغر مہدی ہوش

