EN हिंदी
اسرار عشق ہے دل مضطر لیے ہوئے | شیح شیری
asrar-e-ishq hai dil-e-muztar liye hue

غزل

اسرار عشق ہے دل مضطر لیے ہوئے

اصغر گونڈوی

;

اسرار عشق ہے دل مضطر لیے ہوئے
قطرہ ہے بے قرار سمندر لیے ہوئے

آشوب دہر و فتنۂ محشر لیے ہوئے
پہلو میں یعنی ہو دل مضطر لیے ہوئے

موج نسیم صبح کے قربان جائیے
آئی ہے بوئے زلف معنبر لیے ہوئے

کیا مستیاں چمن میں ہیں جوش بہار سے
ہر شاخ گل ہے ہاتھ میں ساغر لیے ہوئے

قاتل نگاہ یاس کی زد سے نہ بچ سکا
خنجر تھے ہم بھی اک تہ خنجر لیے ہوئے

خیرہ کیے ہے چشم حقیقت شناس بھی
ہر ذرہ ایک مہر منور لیے ہوئے

پہلی نظر بھی آپ کی اف کس بلا کی تھی
ہم آج تک وہ چوٹ ہیں دل پر لیے ہوئے

تصویر ہے کھنچی ہوئی ناز و نیاز کی
میں سر جھکائے اور وہ خنجر لیے ہوئے

صہبائے تند و تیز کو ساقی سنبھالنا
اچھلے کہیں نہ شیشہ و ساغر لیے ہوئے

میں کیا کہوں کہاں ہے محبت کہاں نہیں
رگ رگ میں دوڑی پھرتی ہے نشتر لیے ہوئے

نام ان کا آ گیا کہیں ہنگام باز پرس
ہم تھے کہ اڑ گئے صف محشر لیے ہوئے

اصغرؔ حریم عشق میں ہستی ہی جرم ہے
رکھنا کبھی نہ پاؤں یہاں سر لیے ہوئے