EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کیا کوئی دل لگا کے کہے شعر اے قلقؔ
ناقدریٔ سخن سے ہیں اہل سخن اداس

ارشد علی خان قلق




لاغر ایسا وحشت عشق لب شیریں میں ہوں
چیونٹیاں لے جانی ہیں دانہ مری زنجیر کا

ارشد علی خان قلق




مے جو دی غیر کو ساقی نے کراہت دیکھو
شیشۂ مے کو مرض ہو گیا ابکائی کا

ارشد علی خان قلق




میں وہ میکش ہوں ملی ہے مجھ کو گھٹی میں شراب
شیر کے بدلے پیا ہے میں نے شیرہ تاک کا

ارشد علی خان قلق




منزل ہے اپنی اپنی قلقؔ اپنی اپنی گور
کوئی نہیں شریک کسی کے گناہ میں

ارشد علی خان قلق




مثال آئنہ ہم جب سے حیرتی ہیں ترے
کہ جن دنوں میں نہ تھا تو سنگار سے واقف

ارشد علی خان قلق




مبارک دیر و کعبہ ہوں قلقؔ شیخ و برہمن کو
بچھائیں گے مصلیٰ چل کے ہم محراب ابرو میں

ارشد علی خان قلق