EN हिंदी
ڈورا نہیں ہے سرمے کا چشم سیاہ میں | شیح شیری
Dora nahin hai surme ka chashm-e-siyah mein

غزل

ڈورا نہیں ہے سرمے کا چشم سیاہ میں

ارشد علی خان قلق

;

ڈورا نہیں ہے سرمے کا چشم سیاہ میں
بانا پڑا ہے یار کے پائے نگاہ میں

ہر دم جو میں کھٹکتا ہوں ان کی نگاہ میں
مانند خار اٹھتے ہیں اغیار راہ میں

گھر اس کے دل میں کر کے گئی مفت اپنی جان
کشتی ہماری ڈوب گئی آ کے تھاہ میں

ہر دم وہ سلک گوہر ویران ہوں گھورتا
موتی پرو رہا ہوں میں تار نگاہ میں

ملتا نہیں ہے منزل مقصد کا راہبر
رہزن ہی سے ہو کاش ملاقات راہ میں

آنے کا ان کے کوئی مقرر نہیں ہے دن
آ نکلے ایک بار کہیں سال و ماہ میں

چھینا گلی میں اپنے حسینوں نے نقد دل
لوٹا ہے رہزنوں نے مسافر کو راہ میں

کرتی ہے قتل بانکی ادا اس کی خلق کو
پٹھا لگا ہے تیغ کا تیری کلاہ میں

لڑتے ہی اس سے آنکھ فنا تھے حباب وار
بہر قضا کا گھاٹ ہے تیغ نگاہ میں

دل آ گیا ذقن پہ تری یک بیک مرا
گرتا ہے کوئی دیدہ و دانستہ چاہ میں

خوش چشم تو وہ ہے کہ غزالان ہند و چین
آگے ترے سماتے نہیں ہیں نگاہ میں

ہے شور آمد آمد قاتل جو دیر سے
ہنگامہ جاں نثاروں کا ہے قتل گاہ میں

کیا تم کو خط زیست ہے اتنا تو پوچھتا
ہوتی اگر خضر سے ملاقات راہ میں

اے سرو قد گیا ہوں پئے سیر باغ جب
لپٹا ہوں شجر سے ترے اشتباہ میں

خورشید و ماہ کی بھی جھپکتی ہے اکثر آنکھ
ذروں کی وہ چمک ہے تری گرد راہ میں

آنا ہے او شکار فگن گر تجھے تو آ
امیدوار صید ہیں نخچیر گاہ میں

سندور اس کی مانگ میں دیتا ہے یوں بہار
جیسے دھنک نکلتی ہے ابر سیاہ میں

غفلت یہ ہے کسی کو نہیں قبر کا خیال
کوئی ہے فکر ناں میں کوئی فکر جاہ میں

کہتے ہیں دیکھتے ہیں مبصر اگر اسے
یہ جنس بے بہا ہے ہمارے نگاہ میں

کیا دوں میں اس کے چہرۂ پر نور سے مثال
دھبا لگا ہوا ہے بڑا روئے ماہ میں

ترچھی نظر سے اس نے جو دیکھا یقین ہوا
بل پڑ گیا ہے یار کی تیغ نگاہ میں

اغیار منہ چھپائیں گے ہم سے کہاں تلک
ہوگی کبھی تو ہم سے ملاقات راہ میں

فریاد رس کے پہونچی نہ فریاد کان تک
ارمان رہ گیا یہ دل داد خواہ میں

منزل ہے اپنی اپنی قلقؔ اپنی اپنی گور
کوئی نہیں شریک کسی کے گناہ میں