ستم وہ تم نے کیے بھولے ہم گلہ دل کا
ہوا تمہارے بگڑنے سے فیصلہ دل کا
بہار آتے ہی کنج قفس نصیب ہوا
ہزار حیف کہ نکلا نہ حوصلہ دل کا
چلا ہے چھوڑ کے تنہا کدھر تصور یار
شب فراق میں تجھ سے تھا مشغلہ دل کا
وہ رند ہوں کہ مجھے ہتکڑی سے بیعت ہے
ملا ہے گیسوئے جاناں سے سلسلہ دل کا
وہ ظلم کرتے ہیں ہم پر تو لوگ کہتے ہیں
خدا برے سے نہ ڈالے معاملہ دل کا
ہزار فصل گل آئے جنوں! وہ جوش کہاں
گیا شباب کے ہمراہ ولولہ دل کا
خدا کے ہاتھ ہے اب اپنا اے قلقؔ انصاف
بتوں سے حشر میں ہوگا معاملہ دل کا

غزل
ستم وہ تم نے کیے بھولے ہم گلہ دل کا
ارشد علی خان قلق