EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کشتی چلا رہا ہے مگر کس ادا کے ساتھ
ہم بھی نہ ڈوب جائیں کہیں نا خدا کے ساتھ

عبد الحمید عدم




کون انگڑائی لے رہا ہے عدمؔ
دو جہاں لڑکھڑائے جاتے ہیں

عبد الحمید عدم




خدا نے گڑھ تو دیا عالم وجود مگر
سجاوٹوں کی بنا عورتوں کی ذات ہوئی

عبد الحمید عدم




کسی حسیں سے لپٹنا اشد ضروری ہے
ہلال عید تو کوئی ثبوت عید نہیں

عبد الحمید عدم




کسی جانب سے کوئی مہ جبیں آنے ہی والا ہے
مجھے یاد آ رہی ہے آج متھرا اور کاشی کی

عبد الحمید عدم




کچھ کچھ مری آنکھوں کا تصرف بھی ہے شامل
اتنا تو حسیں تو مرے گلفام نہیں ہے

عبد الحمید عدم




لذت غم تو بخش دی اس نے
حوصلے بھی عدمؔ دیے ہوتے

عبد الحمید عدم