EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

جی چاہتا ہے آج عدمؔ ان کو چھیڑئیے
ڈر ڈر کے پیار کرنے میں کوئی مزا نہیں

عبد الحمید عدم




جن کو دولت حقیر لگتی ہے
اف وہ کتنے امیر ہوتے ہیں

عبد الحمید عدم




جن سے انساں کو پہنچتی ہے ہمیشہ تکلیف
ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اصل خدا والے ہیں

عبد الحمید عدم




جس سے چھپنا چاہتا ہوں میں عدمؔ
وہ ستم گر جا بجا موجود ہے

عبد الحمید عدم




جو اکثر بار ور ہونے سے پہلے ٹوٹ جاتے تھے
وہی خستہ شکستہ عہد و پیماں یاد آتے ہیں

عبد الحمید عدم




جنوں اب منزلیں طے کر رہا ہے
خرد رستہ دکھا کر رہ گئی ہے

عبد الحمید عدم




کبھی تو دیر و حرم سے تو آئے گا واپس
میں مے کدے میں ترا انتظار کر لوں گا

عبد الحمید عدم