EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اتنا ترسایا گیا مجھ کو محبت سے کہ اب
اک محبت پہ قناعت نہیں کر سکتا میں

انجم سلیمی




جانے توڑے تھے کس نے کس کے لیے
پھول میرے گلے پڑے ہوئے تھے

انجم سلیمی




جب خدا بھی نہیں تھا ساتھ مرے
مجھ پہ بیتی ہے ایسی تنہائی

انجم سلیمی




جست بھرتا ہوا فردا کے دہانے کی طرف
جا نکلتا ہوں کسی گزرے زمانے کی طرف

انجم سلیمی




کہنے سننے کے لیے اور بچا ہی کیا ہے
سو مرے دوست اجازت مجھے رخصت کیا جائے

انجم سلیمی




کہو ہوا سے کہ اتنی چراغ پا نہ پھرے
میں خود ہی اپنے دیے کو بجھانے والا ہوں

انجم سلیمی




کیسی ہوتی ہیں اداسی کی جڑیں
آ دکھاؤں تجھے دل کے ریشے

انجم سلیمی