EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

آگے بچھی پڑی رہیں اس کے بدن کی نعمتیں
اس نے بہت کہا مگر میں نے اسے چکھا نہیں

انجم سلیمی




آتی جاتی ہوئی تنہائی کو پہچانتا ہوں
گھر کے دروازے پہ بیٹھا ہوں سدھایا ہوا میں

انجم سلیمی




ادھ بنے خوابوں کا انبار پڑا ہے دل میں
آنکھ والوں کے لیے ہے یہ امانت میری

انجم سلیمی




ایسی کیا بیت گئی مجھ پہ کہ جس کے باعث
آب دیدہ ہیں مرے ہنسنے ہنسانے والے

انجم سلیمی




اپنی تصدیق مجھے تیری گواہی سے ہوئی
تو کہاں سے مرے ہونے کی خبر لایا ہے

انجم سلیمی




برہم ہیں مجھ پہ اس لیے دونوں طرف کے لوگ
دیوار اٹھ گئی تھی تو در کیوں بنایا ہے

انجم سلیمی




بس اندھیرے نے رنگ بدلا ہے
دن نہیں ہے سفید رات ہے یہ

انجم سلیمی