جست بھرتا ہوا فردا کے دہانے کی طرف
جا نکلتا ہوں کسی اور زمانے کی طرف
آنکھ بیدار ہوئی کیسی یہ پیشانی پر
کیسا دروازہ کھلا آئینہ خانے کی طرف
خود ہی انجام نکل آئے گا اس واقعے سے
ایک کردار روانہ ہے فسانے کی طرف
حل نکلتا ہے یہی رشتوں کی مسماری کا
لوگ آ جاتے ہیں دیوار اٹھانے کی طرف
درمیاں تیز ہوا بھی ہے زمانہ بھی ہے
تیر تو چھوڑ دیا میں نے نشانے کی طرف
ایک بچھڑی ہوئی آواز بلاتی ہے مجھے
وقت کے پار سے گم گشتہ ٹھکانے کی طرف
غزل
جست بھرتا ہوا فردا کے دہانے کی طرف
انجم سلیمی