EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ایک تعبیر کی صورت نظر آئی ہے ادھر
سو اٹھا لایا ہوں سب خواب پرانے والے

انجم سلیمی




ہاں زمانے کی نہیں اپنی تو سن سکتا تھا
کاش خود کو ہی کبھی بیٹھ کے سمجھاتا میں

انجم سلیمی




ہر طرف تو نظر آتا ہے جدھر جاتا ہوں
تیرے امکان سے ہجرت نہیں کر سکتا میں

انجم سلیمی




ہجر کو بیچ میں نہیں چھوڑا
سب سے پہلے اسے تمام کیا

انجم سلیمی




ہجر میں بھی ہم ایک دوسرے کے
آمنے سامنے پڑے ہوئے تھے

انجم سلیمی




عشق فرما لیا تو سوچتا ہوں
کیا مصیبت پڑی ہوئی تھی مجھے

انجم سلیمی




اتنا بے تاب نہ ہو مجھ سے بچھڑنے کے لیے
تجھ کو آنکھوں سے نہیں دل سے جدا کرنا ہے

انجم سلیمی