EN हिंदी
قہر کی کیوں نگاہ ہے پیارے | شیح شیری
qahr ki kyun nigah hai pyare

غزل

قہر کی کیوں نگاہ ہے پیارے

آنند نرائن ملا

;

قہر کی کیوں نگاہ ہے پیارے
کیا محبت گناہ ہے پیارے

دل کو اپنی ہی جلوہ گاہ سمجھ
آ نظر فرش راہ ہے پیارے

پھیر لی تو نے جب سے اپنی نظر
میری دنیا سیاہ ہے پیارے

شک بھی کس پر مری محبت پر
جس کا تو خود گواہ ہے پیارے

تیری معصوم سی نظر کی قسم
یہی وجہ گناہ ہے پیارے

دو نگاہیں جہاں پہ مل جائیں
عشق کی شاہراہ ہے پیارے

منہ جو سی دیتی تھی شکایت کا
اب کدھر وہ نگاہ ہے پیارے

جو بظاہر نہیں مری جانب
وہ نظر بے پناہ ہے پیارے

سچ بتا کچھ خفا ہے تو مجھ سے
یا حیا سد راہ ہے پیارے

اجنبی بن رہی ہے تیری نظر
ختم کیا رسم و راہ ہے پیارے

راہ الفت میں ٹھہرنا کیسا
دم بھی لینا گناہ ہے پیارے

دل سی شے اور ناپسند تجھے
اپنی اپنی نگاہ ہے پیارے

نیک ارادوں کے سنگ ریزوں پر
شاہراہ گناہ ہے پیارے

لب پہ آتی ہے جو ہنسی بن کر
ایک ایسی بھی آہ ہے پیارے

عشق میں وہ بھی ایک وقت ہے جب
بے گناہی گناہ ہے پیارے

اور ملاؔ کو کیا مٹاتے ہو
وہ تو یوں ہی تباہ ہے پیارے