EN हिंदी
صبح تک میں سوچتا ہوں شام سے | شیح شیری
subh tak main sochta hun sham se

غزل

صبح تک میں سوچتا ہوں شام سے

امیر قزلباش

;

صبح تک میں سوچتا ہوں شام سے
جی رہا ہے کون میرے نام سے

شہر میں سچ بولتا پھرتا ہوں میں
لوگ خائف ہیں مرے انجام سے

رات بھر جاگے گا چوکی دار ایک
اور سب سو جائیں گے آرام سے

سو برس کا ہو گیا میرا مزار
اب نوازا جاؤں گا انعام سے

ساتھ لاؤں گا تھکن بیکار کی
گھر سے باہر جا رہا ہوں کام سے

نام لے اس کا سفر آغاز کر
دور رکھ دل کو ذرا اوہام سے

زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہ تھا
رہ گیا وہ صرف دو اک گام سے