کھینچ لایا تجھے احساس تحفظ مجھ تک
ہم سفر ہونے کا تیرا بھی ارادہ کب تھا
درگزر کرتی رہی تیری خطائیں برسوں
میرے جذبات و خیالات تو سمجھا کب تھا
موج در موج بھنور کھینچ رہا تھا مجھ کو
میری کشتی کے لیے کوئی کنارہ کب تھا
ظاہراً ساتھ وہ میرے تھا مگر آنکھوں سے
بد گمانی کے نقابوں کو اتارا کب تھا
تجھ کو معلوم نہیں اپنی وفاؤں کے عوض
جان جاں میں نے جو چاہا تھا زیادہ کب تھا
دو کناروں کو ملایا تھا فقط لہروں نے
ہم اگر اس کے نہ تھے وہ بھی ہمارا کب تھا
اس نے میری ہی رفاقت کو بنایا ملزم
میں اگر بھیڑ میں تھی وہ بھی اکیلا کب تھا
وہ ترا عہد وفا یاد ہے اب تک میتاؔ
بھول بیٹھی ہوں محبت کا زمانہ کب تھا
غزل
کھینچ لایا تجھے احساس تحفظ مجھ تک (ردیف .. ا)
'امیتا پرسو رام 'میتا