سوچ کر بھی کیا جانا جان کر بھی کیا پایا
جب بھی آئینہ دیکھا خود کو دوسرا پایا
ہونٹ پر دیا رکھنا دل جلوں کی شوخی ہے
ورنہ اس اندھیرے میں کون مسکرا پایا
بول تھے دوانوں کے جن سے ہوش والوں نے
سوچ کے دھندلکوں میں اپنا راستہ پایا
اہتمام دستک کا اپنی وضع تھی ورنہ
ہم نے در رسائی کا بارہا کھلا پایا
فلسفوں کے دھاگوں سے کھینچ کر سرا دل کا
وہم سے حقیقت تک ہم نے سلسلہ پایا
عمر یا زمانے کا کھیل ہے بہانے کا
سب نے ماجرا دیکھا کس نے مدعا پایا
شاعری طلب اپنی شاعری عطا اس کی
حوصلے سے کم مانگا ظرف سے سوا پایا
سازؔ جب کھلا ہم پر شعر کوئی غالبؔ کا
ہم نے گویا باطن کا اک سراغ سا پایا
غزل
سوچ کر بھی کیا جانا جان کر بھی کیا پایا
عبد الاحد ساز